۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو شروع ہونےوالی غزہ جنگ میں اسرائیل نے بھلے ہی بزعم خود بڑی کامیابیاں حاصل کرلی ہوں مگر زمینی سطح پر جہاں وہ معاشی طور پر تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے وہیں عالمی سطح پر اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔دوسری طرف فلسطین کیلئے بین الاقوامیحمایت میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیاگیاہے۔ امریکہ سمیت وہ ممالک جو اسرائیل کے اتحادی ہیں، انہیں اپنے عوام کے شدید مظاہروں کا سامنا ہے جبکہ عالمی عدالت نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیااور انہیں خالی کرنے کا حکم دیا۔ فلسطین کیلئے حمایت میں اضافہ کا اندازہ جنگ کی پہلی برسی پر دنیا بھر میں مظاہروں سے لگایا جا سکتاہے جو اتوار سے ہی شروع ہوگئےتھے۔
عالمی برادری پہلے غزہ اور اب لبنان کے عام شہریوں کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہوئی مگر فلسطین عالمی سیاست کا سلگتا ہوا موضوع بن گیا ہے۔ برطانیہ جس کا اسرائیل کے غاصبانہ قیام میں کلیدی رول ہے، کو اس کی فوجی امداد میں تخفیف کرنی پڑی جبکہ امریکہ کے اتحادی فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے تل ابیب کو اسلحہ کی فراہمی روکنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جس پر اسرائیل بری طرح تلملا گیا ہے۔
اس ضمن میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں متعدد قراردادیں اسرائیل کے خلاف منظورکی گئیں جبکہ سلامتی کونسل میں امریکی ویٹو کی وجہ سے کوئی قرارداد بھلے ہی منظور نہ ہوپائی ہو مگر اسرائیل کی حمایت میں امریکہ الگ تھلگ ضرور پڑ گیا۔
اکتوبر ۲۰۲۳ء کےبعد سے دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ امریکہ جو اسرائیل کی پشت پناہی میں سب سے آگے ہے ، کے شہر واشنگٹن ڈی سی میں نومبر۲۰۲۳ء میں اس کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج اسرائیل کے خلاف ہوا جس میں ۵؍ لاکھ افراد نے شرکت کی ۔برطانیہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ہر ہفتے مارچ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ لندن میں ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو ہونے والے احتجاج نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا جس میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی ۔ مشرق وسطیٰ اور مسلم ممالک میں تو احتجاج فطری ہے مگر ٹوکیو، سڈنی، ویانا (آسٹریا)،برلن، پیرس، منیلا اور کیپ ٹاؤن جیسے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے۔